EN हिंदी
کہیے گر ربط مدعی سے ہے | شیح شیری
kahiye gar rabt muddai se hai

غزل

کہیے گر ربط مدعی سے ہے

نظام رامپوری

;

کہیے گر ربط مدعی سے ہے
کہتے ہیں دوستی تجھی سے ہے

دیکھیے آگے آگے کیا کچھ ہو
دل کی حرکت یہ کچھ ابھی سے ہے

اس کی الفت میں جیتے جی مرنا
فائدہ یہ بھی زندگی سے ہے

ضد ہے گر ہے تو ہو سبھی کے ساتھ
یا نہ ملنے کی ضد مجھی سے ہے

خوف سے تم سے کہہ نہیں سکتے
دل میں اک آرزو کبھی سے ہے

مجھ سے پوچھو ہو کس سے الفت ہے
تم سمجھتے نہیں کسی سے ہے

رنجش غیر سے نہیں مطلب
کام ہم کو تری خوشی سے ہے

اس قدر آپ ہم پہ ظلم کریں
اس کا انصاف آپ ہی سے ہے

رشک دشمن نہ سہہ سکے گا نظامؔ
یہ بھی ناچار اپنے جی سے ہے