کہیے گر ربط مدعی سے ہے
کہتے ہیں دوستی تجھی سے ہے
دیکھیے آگے آگے کیا کچھ ہو
دل کی حرکت یہ کچھ ابھی سے ہے
اس کی الفت میں جیتے جی مرنا
فائدہ یہ بھی زندگی سے ہے
ضد ہے گر ہے تو ہو سبھی کے ساتھ
یا نہ ملنے کی ضد مجھی سے ہے
خوف سے تم سے کہہ نہیں سکتے
دل میں اک آرزو کبھی سے ہے
مجھ سے پوچھو ہو کس سے الفت ہے
تم سمجھتے نہیں کسی سے ہے
رنجش غیر سے نہیں مطلب
کام ہم کو تری خوشی سے ہے
اس قدر آپ ہم پہ ظلم کریں
اس کا انصاف آپ ہی سے ہے
رشک دشمن نہ سہہ سکے گا نظامؔ
یہ بھی ناچار اپنے جی سے ہے

غزل
کہیے گر ربط مدعی سے ہے
نظام رامپوری