کہیں یہ درد کا دھاگا بھی یوں سلجھتا ہے
گرہ جو کھولیں تو دل اور بھی الجھتا ہے
وہ ایک بات جو دل میں ہے میرے اس کے لیے
زباں سے کہتا نہیں وہ مگر سمجھتا ہے
میں تیری آنکھوں کی یہ پیاس کس طرح دیکھوں
مرے وجود میں بادل کوئی گرجتا ہے
عجیب چیز ہے یہ خوبی خطوط بدن
کوئی لباس ہو اس کے بدن پہ سجتا ہے
یہ رات اور یہ ڈستی ہوئی سی تنہائی
لہو کا ساز قمرؔ تن بدن میں بجتا ہے

غزل
کہیں یہ درد کا دھاگا بھی یوں سلجھتا ہے
قمر اقبال