EN हिंदी
کہیں یہ درد کا دھاگا بھی یوں سلجھتا ہے | شیح شیری
kahin ye dard ka dhaga bhi yun sulajhta hai

غزل

کہیں یہ درد کا دھاگا بھی یوں سلجھتا ہے

قمر اقبال

;

کہیں یہ درد کا دھاگا بھی یوں سلجھتا ہے
گرہ جو کھولیں تو دل اور بھی الجھتا ہے

وہ ایک بات جو دل میں ہے میرے اس کے لیے
زباں سے کہتا نہیں وہ مگر سمجھتا ہے

میں تیری آنکھوں کی یہ پیاس کس طرح دیکھوں
مرے وجود میں بادل کوئی گرجتا ہے

عجیب چیز ہے یہ خوبی خطوط بدن
کوئی لباس ہو اس کے بدن پہ سجتا ہے

یہ رات اور یہ ڈستی ہوئی سی تنہائی
لہو کا ساز قمرؔ تن بدن میں بجتا ہے