کہیں یقیں سے نہ ہو جائیں ہم گماں کی طرح
سنبھال کر ہمیں رکھیے متاع جاں کی طرح
جسے صدف کی طرح آنکھ میں چھپایا تھا
وہ کھو نہ جائے کہیں اشک رائیگاں کی طرح
ہمیں بھی خوف تلاطم نے گھیر رکھا تھا
کھلا نہیں تھا ابھی وہ بھی بادباں کی طرح
نصاب عشق میں سارے سوال مشکل تھے
محبتیں بھی تھیں درپیش امتحاں کی طرح
کھلے جو لب تو انہی آئنوں میں حیرت تھی
جو دیکھتے تھے ہمیں عکس بے زباں کی طرح
جہاں ملی تھیں کبھی خوشبوئیں ہواؤں سے
مہک رہا تھا وہ جنگل بھی گلستاں کی طرح
ہنر وری ہے ہماری کہ اپنے خوابوں سے
قفس بھی ہم نے سجایا تھا آشیاں کی طرح
غزل
کہیں یقیں سے نہ ہو جائیں ہم گماں کی طرح
فرح اقبال