کہیں امید سی ہے دل کے نہاں خانے میں
ابھی کچھ وقت لگے گا اسے سمجھانے میں
موسم گل ہو کہ پت جھڑ ہو بلا سے اپنی
ہم کہ شامل ہیں نہ کھلنے میں نہ مرجھانے میں
ہم سے مخفی نہیں کچھ رہ گزر شوق کا حال
ہم نے اک عمر گزاری ہے ہوا کھانے میں
ہے یوں ہی گھومتے رہنے کا مزہ ہی کچھ اور
ایسی لذت نہ پہنچنے میں نہ رہ جانے میں
نئے دیوانوں کو دیکھیں تو خوشی ہوتی ہے
ہم بھی ایسے ہی تھے جب آئے تھے ویرانے میں
موسموں کا کوئی محرم ہو تو اس سے پوچھو
کتنے پت جھڑ ابھی باقی ہیں بہار آنے میں
غزل
کہیں امید سی ہے دل کے نہاں خانے میں
احمد مشتاق