کہیں شنوائی نہیں حسن کی محفل کے خلاف
گل نہ کیوں ہنستے رہیں شور عنادل کے خلاف
جان و ایماں بھی وہی دشمن جان و ایماں
ہم گواہی بھی نہ دیں گے کہیں قاتل کے خلاف
کسی جادے پہ چلو چھوڑے گی تنہائی نہ ساتھ
قدم اٹھیں تو کدھر عشق کی منزل کے خلاف
بزم یاراں ہو کہ مے نغمہ کے فیضان سخن
سب ہیں سازش میں شریک اس کی مرے دل کے خلاف
ہجر میں جی کے بہلنے کے تھے جتنے حیلے
وحشت اک ساتھ رہی ہو گئے سب مل کے خلاف
اسی آغوش میں دم توڑیں گی آ کر موجیں
بھاگتی پھرتی ہیں بیکار ہی ساحل کے خلاف
عقل دنیا کا تمہیں دعویٰ ہے بے وجہ وحیدؔ
دو قدم چل نہیں سکتے کبھی تم دل کے خلاف

غزل
کہیں شنوائی نہیں حسن کی محفل کے خلاف
وحید اختر