EN हिंदी
کہیں شعلہ کہیں خاکستر تازہ نظر آیا | شیح شیری
kahin shoala kahin KHakistar-e-taza nazar aaya

غزل

کہیں شعلہ کہیں خاکستر تازہ نظر آیا

سید امین اشرف

;

کہیں شعلہ کہیں خاکستر تازہ نظر آیا
وہاں میں تھا جہاں پھولوں کا دروازہ نظر آیا

بہکتی ہیں ہوائیں پھول بے موسم بھی کھلتے ہیں
جہان آب و گل ہم کو بہ اندازہ نظر آیا

ہوا کی زہر ناکی ابر نارفتہ کی سفاکی
مجھے اکثر وداع گل کا خمیازہ نظر آیا

اداسی تھی کہ تھا اک جلوۂ صد رنگ و بو شاید
دل بے رنگ بھی رنگوں کا شیرازہ نظر آیا

شجر کا عکس تھا آب رواں تھا اور میں بھی تھا
ثمر شاخ بریدہ کا تر و تازہ نظر آیا

زباں کا حسن بھی ہموار و ناہموار ہوتا ہے
کہیں فطرت نظر آئی کہیں غازہ نظر آیا