کہیں شعلہ کہیں خاکستر تازہ نظر آیا
وہاں میں تھا جہاں پھولوں کا دروازہ نظر آیا
بہکتی ہیں ہوائیں پھول بے موسم بھی کھلتے ہیں
جہان آب و گل ہم کو بہ اندازہ نظر آیا
ہوا کی زہر ناکی ابر نارفتہ کی سفاکی
مجھے اکثر وداع گل کا خمیازہ نظر آیا
اداسی تھی کہ تھا اک جلوۂ صد رنگ و بو شاید
دل بے رنگ بھی رنگوں کا شیرازہ نظر آیا
شجر کا عکس تھا آب رواں تھا اور میں بھی تھا
ثمر شاخ بریدہ کا تر و تازہ نظر آیا
زباں کا حسن بھی ہموار و ناہموار ہوتا ہے
کہیں فطرت نظر آئی کہیں غازہ نظر آیا

غزل
کہیں شعلہ کہیں خاکستر تازہ نظر آیا
سید امین اشرف