کہیں سے ساز شکستہ کی پھر صدا آئی
بہت دنوں میں اک آواز آشنا آئی
چلی کچھ آج اس انداز سے نسیم سحر
کہ بار بار کسی کی صدائے پا آئی
تمہاری طلعت زیبا کو کر لیا سجدہ
نظر جہاں بھی کوئی شکل دل ربا آئی
عجیب لطف ہوا ان کی یاد سے محسوس
کہ جیسے دل کے دریچے کھلے ہوا آئی
رہ حیات میں کانٹے بکھیرنے والے!
حیات بھی ترے در تک برہنہ پا آئی
چمن سے پہلے تو اک سیل آتشیں گزرا
پھر اس کے بعد برستی ہوئی گھٹا آئی
شروع عشق میں ان سے ہی کچھ حجاب نہ تھا
کبھی کبھی تو خود اپنے سے بھی حیا آئی
ہم اپنے حال پریشاں پہ بارہا روئے
اور اس کے بعد ہنسی ہم کو بارہا آئی
کبھی قریب سے چھیڑا جو ساز جاں کو رئیسؔ
تو گوش دل میں بہت دور کی صدا آئی
غزل
کہیں سے ساز شکستہ کی پھر صدا آئی
رئیس امروہوی