کہیں سے کوئی حرف معتبر شاید نہ آئے
مسافر لوٹ کر اب اپنے گھر شاید نہ آئے
قفس میں آب و دانے کی فراوانی بہت ہے
اسیروں کو خیال بال و پر شاید نہ آئے
کسے معلوم اہل ہجر پر ایسے بھی دن آئیں
قیامت سر سے گزرے اور خبر شاید نہ آئے
جہاں راتوں کو پڑ رہتے ہوں آنکھیں موند کر لوگ
وہاں مہتاب میں چہرہ نظر شاید نہ آئے
کبھی ایسا بھی دن نکلے کہ جب سورج کے ہم راہ
کوئی صاحب نظر آئے مگر شاید نہ آئے
سبھی کو سہل انگاری ہنر لگنے لگی ہے
سروں پر اب غبار رہ گزر شاید نہ آئے
غزل
کہیں سے کوئی حرف معتبر شاید نہ آئے
افتخار عارف