کہیں سے غیر جو پہلو میں آئے بیٹھے ہیں
اسی لئے وہ ہمیں یوں بھلائے بیٹھے ہیں
ذرا سمجھ کے کرو ہم سے اپنے غم کا بیاں
ہم ایک عمر کے صدمے اٹھائے بیٹھے ہیں
کبھی خیال میں اپنے مجھے نہیں لائے
وہ مدتوں سے مرے دل میں آئے بیٹھے ہیں
کہاں سے لو گے وہ صورت وہ کمسنی کا جمال
ہم اپنے گوشۂ دل میں چھپائے بیٹھے ہیں
خدا کا شکر ہے ان کو خیال تو آیا
کہ وہ کسی کی نظر میں سمائے بیٹھے ہیں
دھرا ہی کیا ہے محبت میں بے کسی کے سوا
ہم اپنے آپ مقدر بنائے بیٹھے ہیں
نگاہ ناز کے طالب ہیں رہ گزر میں تری
اسی فراق میں دھونی رمائے بیٹھے ہیں
کسی کو دیکھ لیا تھا کہیں پہ ناداں نے
تبھی سے خود کو یہ حضرت لبھائے بیٹھے ہیں

غزل
کہیں سے غیر جو پہلو میں آئے بیٹھے ہیں
جتیندر موہن سنہا رہبر