EN हिंदी
کہیں سے باس نئے موسموں کی لاتی ہوئی | شیح شیری
kahin se bas nae mausamon ki lati hui

غزل

کہیں سے باس نئے موسموں کی لاتی ہوئی

عابد سیال

;

کہیں سے باس نئے موسموں کی لاتی ہوئی
ہوائے تازہ در نیم وا سے آتی ہوئی

بطور خاص کہاں اس نگر صبا کا ورود
کبھی کبھی یوں ہی رکتی ہے آتی جاتی ہوئی

میں اپنے دھیان میں گم صم اور ایک ساعت شوخ
گزر گئی مری حالت پہ مسکراتی ہوئی

سراب خواہش آسودگی مگر کوئی شے
ملی نہیں ہے طبیعت سے میل کھاتی ہوئی

لہو میں تیرتی خاموشیوں کے ساتھ کہیں
رواں دواں ہے کوئی چیخ سنسناتی ہوئی

یہاں وہاں ہیں کئی خواب جگمگاتے ہوئے
کہیں کہیں کوئی تعبیر ٹمٹماتی ہوئی