کہیں صحرا میں جو دریا دیکھیں
ہم بھی آئینے میں چہرا دیکھیں
ہم محبت کے لئے خاک اڑائیں
لوگ گلیوں میں تماشا دیکھیں
صبر آ جائے اگر اپنا یہ حال
جن کی خاطر ہے وہ تنہا دیکھیں
بند آنکھوں میں بڑی وسعت ہے
بند آنکھوں ہی سے دنیا دیکھیں
گھر ہے موسم سے بچانا مشکل
جانب ابر و ہوا کیا دیکھیں
اتنی دیوار گلستاں نہ بڑھاؤ
کہ بیاباں مرا رستا دیکھیں
اب یہی شکل تمنا ہے کہ ہم
عمر بھر خواب تمنا دیکھیں
ہم بشر ہیں نہ کہ صحرا کے شجر
جو سدا اپنا ہی سایا دیکھیں

غزل
کہیں صحرا میں جو دریا دیکھیں
محشر بدایونی