کہیں رسوا ترا شیدا سر محفل نہ ہو جائے
پریشانی جنون عشق کا حاصل نہ ہو جائے
ابھی کچھ ٹھوکریں کھانی ہیں طوفان حوادث میں
کہیں کشتی مری شرمندۂ ساحل نہ ہو جائے
بکھرتے ہیں ترے شانوں پہ گیسو آج بل کھا کر
کہیں برہم یہ میری کائنات دل نہ ہو جائے
ٹپکتی ہیں خرام ناز سے رنگینیاں سو سو
مجھے ڈر ہے کہ یہ دنیا سمٹ کر دل نہ ہو جائے
قرار اضطراب جان و دل نیرؔ اسی سے ہے
پرے گردن سے میری خنجر قاتل نہ ہو جائے
غزل
کہیں رسوا ترا شیدا سر محفل نہ ہو جائے
نیرآثمی