EN हिंदी
کہیں قابل کرم ہے کہیں پیکر ستم بھی | شیح شیری
kahin qabil-e-karam hai kahin paikar-e-sitam bhi

غزل

کہیں قابل کرم ہے کہیں پیکر ستم بھی

مسعود میکش مراد آبادی

;

کہیں قابل کرم ہے کہیں پیکر ستم بھی
یہی زندگی جہنم یہی زندگی ارم بھی

میں وہ حرف اولیں ہوں نہ مٹا سکا زمانہ
کہ ہزار مجھ سے الجھے یہ جہاں کے پیچ و خم بھی

یہی فرق تو ہے ناداں ترے غم میں میرے غم میں
تجھے دوستوں کا غم ہے مجھے دشمنوں کا غم بھی

نہ خرد ہی ہم سفر ہے نہ جنوں ہی راہبر ہے
یہ مقام کون سا ہے یہاں رک گئے قدم بھی

یہ عجیب مے کدہ ہے کہ گمان میکدہ ہے
یہاں رند ہوش میں ہیں یہاں فکر بیش و کم بھی

مری زندگی میں ایسی کئی منزلیں بھی آئیں
جہاں کچھ نہ کام آئی تری پرسش کرم بھی

نہ ملی جنوں میں میکشؔ مجھے فرصت نظارہ
سر راہ یوں تو آئے کئی دیر بھی حرم بھی