کہیں پہ مال و دنیا کی خریدار کی باتیں ہیں
کہیں پہ دن بہ دن بڑھتی ریاکاری کی باتیں ہیں
بھرے بازار میں سچ کی دکانوں پر ہے سناٹا
تجارت جھوٹ کی چمکی ہے مکاری کی باتیں ہیں
کہیں روزے پہ روزے صرف پانی پی کے کھلتے ہیں
کہیں بس نام پہ روزوں کے افطاری کہ باتیں ہیں
کہیں کھانا ہی کھانا ہے مگر پینے سے کب فرصت
کہیں پہ بھوک کی بستی میں بیماری کہ باتیں ہیں
زمانے اور تھے وہ جن میں کچھ درویش ہوتے تھے
نئے اس دور میں ہر سمت بد کاری کی باتیں ہیں
وفا ایثار قربانی وہاں اب لوگ کیا جانیں
جہاں نیلام ہوتے ظرف و خود داری کی باتیں ہیں
کبھی مذہب تھا دل میں اب ہے دولت کی پناہوں میں
خدا کا نام لے کر بھی گنہ گاری کی باتیں ہیں
کسی کے زخم پہ مرہم حناؔ رکھتا نہیں کوئی
نمک لہجوں نے گھولا قلب آزاری کی باتیں ہیں
غزل
کہیں پہ مال و دنیا کی خریدار کی باتیں ہیں
حنا رضوی