EN हिंदी
کہیں پہ جسم کہیں پر خیال رہتا ہے | شیح شیری
kahin pe jism kahin par KHayal rahta hai

غزل

کہیں پہ جسم کہیں پر خیال رہتا ہے

عالم خورشید

;

کہیں پہ جسم کہیں پر خیال رہتا ہے
محبتوں میں کہاں اعتدال رہتا ہے

فلک پہ چاند نکلتا ہے اور دریا میں
بلا کا شور غضب کا ابال رہتا ہے

دیار دل میں بھی آباد ہے کوئی صحرا
یہاں بھی وجد میں رقصاں غزال رہتا ہے

چھپا ہے کوئی فسوں گر سراب آنکھوں میں
کہیں بھی جاؤ اسی کا جمال رہتا ہے

تمام ہوتا نہیں عشق ناتمام کبھی
کوئی بھی عمر ہو یہ لا زوال رہتا ہے

وصال جسم کی صورت نکل تو آتی ہے
دلوں میں ہجر کا موسم بحال رہتا ہے

خوشی کے لاکھ وسائل خرید لو عالمؔ
دل شکستہ مگر پر ملال رہتا ہے