کہیں پہ چیخ ہوگی اور کہیں کلکاریاں ہوں گی
اگر حاکم کے آگے بھوک اور لاچاریاں ہوں گی
اگر ہر دل میں چاہت ہو شرافت ہو صداقت ہو
محبت کا چمن ہوگا خوشی کی کیاریاں ہوں گی
کسی کو شوق یوں ہوتا نہیں غربت میں جینے کا
یقیناً سامنے اس کے بڑی دشواریاں ہوں گی
یہ ہولی عید کہتی ہے بھلا کب اپنے ہاتھوں میں
وفا کا رنگ ہوگا پیار کی پچکاریاں ہوں گی
مقابل میں ہے آیا ایک جگنو آج سورج کے
یقیناً پاس اس کے بھی بڑی تیاریاں ہوں گی
سخنور کا یہ آنگن ہے رضاؔ شعروں کی خوشبو ہے
غزل اور گیت نظموں کی یہاں پھلواریاں ہوں گی

غزل
کہیں پہ چیخ ہوگی اور کہیں کلکاریاں ہوں گی
سلیم رضا ریوا