کہیں پر ظلم کے شعلے کہیں پر خود پرستی ہے
چمن کی آبرو خطرے میں ہے یہ بات سچی ہے
وہ گھولا زہر نفرت کا سیاست نے فضاؤں میں
گلوں کی آنکھ سے شبنم لہو بن کر ٹپکتی ہے
بغاوت پر اگر ہم لوگ اتر آئے تو کیا ہوگا
ابھی تو ہم نے رسی صبر کی یہ تھام رکھی ہے
وہاں انصاف کی امید لے کر جا رہے ہو تم
جہاں قانون نے آنکھوں سے پٹی باندھ رکھی ہے
تڑپتا ہوں بچھڑ کر آپ سے کچھ اس طرح جوہرؔ
بنا پانی کے جیسے ریت پہ مچھلی تڑپتی ہے
غزل
کہیں پر ظلم کے شعلے کہیں پر خود پرستی ہے
علی خان جوہر