کہیں پر زندگی کا نام نامی موج مستی ہے
کہیں پر آدمیت زندہ رہنے کو ترستی ہے
جہان زندگی کی قدرتی تصویر ہیں دونوں
کہیں سوکھا پڑا ہے اور کہیں بارش برستی ہے
تری دولت تجھے کیا فیض پہنچائے گی تیرے بعد
میسر زندگی جتنی بھی قیمت پر ہو سستی ہے
کسی قابل میں ہوتا تو کبھی کا قتل ہو جاتا
کہ ہر اہل صلاحیت کی دشمن میری بستی ہے
محبت ہی کیا کرتی ہے آمادہ بغاوت پر
محبت ہی وفاداری کی زنجیروں میں کستی ہے
کما لینا مگر ہرگز نہ کرنا پیار دولت سے
یہ ناگن اپنے شیدا کو نہتھا کر کے ڈستی ہے
کبھی طالبؔ یہاں انسانیت کی قدر ہوتی تھی
مگر اب جس طرف بھی دیکھتا ہوں زر پرستی ہے
غزل
کہیں پر زندگی کا نام نامی موج مستی ہے
ایاز احمد طالب