کہیں کچھ اور بھی ہے خواہش دگر کے بعد
نہ جانے کون سی منزل ہے خیر و شر کے بعد
تری گلی میں مرے دل کی قدر ہے تو سہی
مگر ہے گرد و خس و خاک رہ گزر کے بعد
بدل کے راہ گزر منزل دگر کی طرف
اسی سفر پہ چلیں گے ہم اس سفر کے بعد
عجیب طرح کا یہ بے نیاز موسم ہے
شگوفے نکلے مری شاخ پہ ثمر کے بعد

غزل
کہیں کچھ اور بھی ہے خواہش دگر کے بعد
شفق سوپوری