کہیں کا غصہ کہیں کی گھٹن اتارتے ہیں
غرور یہ ہے کاغذ پہ فن اتارتے ہیں
سنی ہے ٹوٹتے پتوں کی ہم نے سرگوشی
یہ پیڑ پودے بھی کیا پیرہن اتارتے ہیں
سیاسی لوگوں سے امید کیسی خاک وطن
وطن کا قرض کہیں راہزن اتارتے ہیں
زمیں پہ رکھ دیں اگر آپ اپنی شمشیریں
تو ہم بھی اپنے سروں سے کفن اتارتے ہیں
اتر کے روح کی گہرائیوں میں ہم ہر روز
خود اپنی قبر میں اپنا بدن اتارتے ہیں
خدا کرے کہ سلامت رہیں یہ بوڑھے شجر
کہ ہم پرندے یہیں پر تھکن اتارتے ہیں
غزل
کہیں کا غصہ کہیں کی گھٹن اتارتے ہیں
شاہد جمال