کہیں جینے سے میں ڈرنے لگا تو
اجل کے وقت ہی گھبرا گیا تو
یہ دنیا اشک سے غم ناپتی ہے
اگر میں ضبط کر کے رہ گیا تو
خوشی سے نیند میں ہی چل بسوں گا
وہ گر خوابوں میں ہی میرا ہوا تو
یہ اونچی بلڈنگیں ہیں جس کے دم سے
وہ خود فٹ پاتھ پر سویا ملا تو
میں برسوں سے جو اب تک کہہ نہ پایا
لبوں تک پھر وہی آ کر رکا تو
قرینے سے سجا کمرہ ہے جس کا
وہ خود اندر سے گر بکھرا ملا تو
لکیروں سے ہیں میرے ہاتھ خالی
مگر پھر بھی جو وہ مجھ کو ملا تو
یہاں ہر شخص رو دے گا یقیناً
غزل گر میں یوں ہی کہتا رہا تو
سفر جاری ہے جس کے دم پہ کانہاؔ
اگر ناراض وہ جگنو ہوا تو

غزل
کہیں جینے سے میں ڈرنے لگا تو
پرکھر مالوی کانھا