EN हिंदी
کہیں جنگل کہیں دربار سے جا ملتا ہے | شیح شیری
kahin jangal kahin darbar se ja milta hai

غزل

کہیں جنگل کہیں دربار سے جا ملتا ہے

رام ریاض

;

کہیں جنگل کہیں دربار سے جا ملتا ہے
سلسلہ وقت کا تلوار سے جا ملتا ہے

میں جہاں بھی ہوں مگر شہر میں دن ڈھلتے ہی
میرا سایہ تری دیوار سے جا ملتا ہے

تیری آواز کہیں روشنی بن جاتی ہے
تیرا لہجہ کہیں مہکار سے جا ملتا ہے

چودھویں رات تری زلف میں ڈھل جاتی ہے
چڑھتا سورج ترے رخسار سے جا ملتا ہے

گرد پھر وسعت صحرا میں سمٹ جاتی ہے
راستہ کوچہ و بازار سے جا ملتا ہے

رامؔ ہر چند کئی لوگ بچھڑ جاتے ہیں
قافلہ قافلہ سالار سے جا ملتا ہے