کہیں جنگل کہیں دربار سے جا ملتا ہے
سلسلہ وقت کا تلوار سے جا ملتا ہے
میں جہاں بھی ہوں مگر شہر میں دن ڈھلتے ہی
میرا سایہ تری دیوار سے جا ملتا ہے
تیری آواز کہیں روشنی بن جاتی ہے
تیرا لہجہ کہیں مہکار سے جا ملتا ہے
چودھویں رات تری زلف میں ڈھل جاتی ہے
چڑھتا سورج ترے رخسار سے جا ملتا ہے
گرد پھر وسعت صحرا میں سمٹ جاتی ہے
راستہ کوچہ و بازار سے جا ملتا ہے
رامؔ ہر چند کئی لوگ بچھڑ جاتے ہیں
قافلہ قافلہ سالار سے جا ملتا ہے

غزل
کہیں جنگل کہیں دربار سے جا ملتا ہے
رام ریاض