کہیں گویائی کے ہاتھوں سماعت رو رہی ہے
کہیں لب بستہ رہ جانے کی حسرت رو رہی ہے
کسی دیوار پر ناخن نے لکھا ہے رہائی
کسی گھر میں اسیری کی اذیت رو رہی ہے
کہیں منبر پہ خوش بیٹھا ہے اک سجدے کا نشہ
کسی محراب کے نیچے عبادت رو رہی ہے
یہ ماتھے پر پسینے کی جو لرزش تم نے دیکھی
یہ اک چہرے پہ لا حاصل مشقت رو رہی ہے
عجب محفل ہے سب اک دوسرے پر ہنس رہے ہیں
عجب تنہائی ہے خلوت کی خلوت رو رہی ہے
یہ خاموشی نہیں سب التجائیں تھک چکی ہیں
یہ آنکھیں تر نہیں رونے کی ہمت رو رہی ہے
جو بعد از ہجر آیا اس کو کیسے وصل کہہ دوں
شکایت سے گلے مل کر ندامت رو رہی ہے
اسے غصہ نہ سمجھو عزمؔ یہ میرے لہو میں
مسلسل ضبط کرنے کی روایت رو رہی ہے
غزل
کہیں گویائی کے ہاتھوں سماعت رو رہی ہے
عزم بہزاد