کہیں فسانۂ غم ہے کہیں خوشی کی پکار
سنے گا آج یہاں کون زندگی کی پکار
خدا شناس ہے زاہد مگر نہیں معلوم
کہ آدمی کو جگاتی ہے آدمی کی پکار
لباس صبح میں ہے کوئی رہبر صادق
جگا رہی ہے اندھیرے کو روشنی کی پکار
فغان روح محبت تھی یا صدائے حبیب
سنی تو ہے دل خاموش نے کسی کی پکار
ترا سکوت نہ رسوا کرے روشؔ تجھ کو
کہ دور دور پہنچتی ہے خامشی کی پکار
غزل
کہیں فسانۂ غم ہے کہیں خوشی کی پکار
روش صدیقی