کہیں چراغ جلا روشنی کہیں پہنچی
کھلی تھی آنکھ کہیں زندگی کہیں پہنچی
جو روبرو ہے اسی کی تلاش جاری ہے
نظر اٹھی کہیں بد قسمتی کہیں پہنچی
ہزار فاصلے طے کر کے بھی وہیں ہم ہیں
کہیں سے ہو کے تمہاری گلی کہیں پہنچی
لہو اچھال کے بنجر زمیں کو سینچا تھا
غضب تو یہ ہے کہ ساری نمی کہیں پہنچی
خوشی کا کیا ہے بھروسا ملے ملے نہ ملے
وہ میرے گھر کا پتہ ڈھونڈھتی کہیں پہنچی
وہ مضطرب ہے کہ فرزانگی کو کچھ نہ ملا
میں مطمئن ہوں کہ دیوانگی کہیں پہنچی
اڑان میری پر و بال سے بھی آگے تھی
اڑا کے مجھ کو مری شاعری کہیں پہنچی
غزل
کہیں چراغ جلا روشنی کہیں پہنچی
کاوش بدری