EN हिंदी
کہیں بھی زندگی اپنی گزار سکتا تھا | شیح شیری
kahin bhi zindagi apni guzar sakta tha

غزل

کہیں بھی زندگی اپنی گزار سکتا تھا

بلراج بخشی

;

کہیں بھی زندگی اپنی گزار سکتا تھا
وہ چاہتا تو میں دانستہ ہار سکتا تھا

زمین پاؤں سے میرے لپٹ گئی ورنہ
میں آسمان سے تارے اتار سکتا تھا

جلا رہی ہیں جسے تیز دھوپ کی نظریں
وہ ابر باغ کی قسمت سنوار سکتا تھا

عجیب معجزہ کاری تھی اس کی باتوں میں
کہ وہ یقیں کے جزیرے ابھار سکتا تھا

مرے مکان میں دیوار ہے نہ دروازہ
مجھے تو کوئی بھی گھر سے پکار سکتا تھا

پر اطمینان تھیں اس کی رفاقتیں بلراجؔ
وہ آئنہ میں مجھے بھی اتار سکتا تھا