EN हिंदी
کہیں بھی شہر میں کنج اماں نہیں ملتا | شیح شیری
kahin bhi shahr mein kunj-e-aman nahin milta

غزل

کہیں بھی شہر میں کنج اماں نہیں ملتا

ممتاز اطہر

;

کہیں بھی شہر میں کنج اماں نہیں ملتا
کہ آج رابطۂ جسم و جاں نہیں ملتا

یہ سوچتا ہوں کہاں سے ہو ابتدا، آخر
کہ حرف کوئی پس داستاں نہیں ملتا

سمے کی لہر میں غرقاب ہو رہا ہوں میں
کہیں پہ ناؤ کہیں بادباں نہیں ملتا

تمام عمر کی لا حاصلی عذاب ہوئی
وہ مل گیا ہے تو اپنا نشاں نہیں ملتا

بتا رہی ہے بگولوں کی ہم رہی مجھ کو
پس غبار کوئی کارواں نہیں ملتا

مرے خلاف شہادت ہے معتبر سب کی
مگر کسی سے کسی کا بیاں نہیں ملتا

یہ کیسی ساعتیں سر پر ہیں آج کل اطہرؔ
زمیں ملی ہے تو اب آسماں نہیں ملتا