کہیں بھی شہر میں کنج اماں نہیں ملتا
کہ آج رابطۂ جسم و جاں نہیں ملتا
یہ سوچتا ہوں کہاں سے ہو ابتدا، آخر
کہ حرف کوئی پس داستاں نہیں ملتا
سمے کی لہر میں غرقاب ہو رہا ہوں میں
کہیں پہ ناؤ کہیں بادباں نہیں ملتا
تمام عمر کی لا حاصلی عذاب ہوئی
وہ مل گیا ہے تو اپنا نشاں نہیں ملتا
بتا رہی ہے بگولوں کی ہم رہی مجھ کو
پس غبار کوئی کارواں نہیں ملتا
مرے خلاف شہادت ہے معتبر سب کی
مگر کسی سے کسی کا بیاں نہیں ملتا
یہ کیسی ساعتیں سر پر ہیں آج کل اطہرؔ
زمیں ملی ہے تو اب آسماں نہیں ملتا
غزل
کہیں بھی شہر میں کنج اماں نہیں ملتا
ممتاز اطہر