کہیں بھی سایہ نہیں کس طرف چلے کوئی
درخت کاٹ گیا ہے ہرے بھرے کوئی
عجیب رت ہے زباں ذائقے سے ہے محروم
تمام شہر ہی چپ ہو تو کیا کرے کوئی
ہمارے شہر میں ہے وہ گریز کا عالم
چراغ بھی نہ جلائے چراغ سے کوئی
یہ زندگی ہے سفر منجمد سمندر کا
وہیں پہ شق ہو زمیں جس جگہ رکے کوئی
پلٹ کر آ نہیں سکتے گئے ہوئے لمحے
تمام عمر بھی اب جاگتا رہے کوئی
مثال عکس مقید حصار ذات میں ہوں
وہ موج ہوں جسے رستہ نہ مل سکے کوئی
پھر اس کے بعد بکھر جاؤں ریت کی صورت
بس ایک بار مجھے ٹوٹ کر ملے کوئی
حضور حسن یہ دل کاسۂ گدائی ہے
ہوں وہ فقیر جسے بھیک بھی نہ دے کوئی
سوال اس نے بھی کوئی نہیں کیا شہزادؔ
جواب بن نہ پڑے جس کے سامنے کوئی
غزل
کہیں بھی سایہ نہیں کس طرف چلے کوئی
شہزاد احمد