کہانیاں بھی گئیں قصہ خوانیاں بھی گئیں
وفا کے باب کی سب بے زبانیاں بھی گئیں
وہ بازیابیٔ غم کی سبیل بھی نہ رہی
لٹا یوں دل کہ سبھی بے ثباتیاں بھی گئیں
ہوا چلی تو ہرے پتے سوکھ کر ٹوٹے
جو صبح آئی تو ہیرا نمائیاں بھی گئیں
وہ میرا چہرہ مجھے آئنے میں اپنا لگے
اسی طلب میں بدن کی نشانیاں بھی گئیں
پلٹ پلٹ کے تمہیں دیکھا پر ملے بھی نہیں
وہ عہد ضبط بھی ٹوٹا شتابیاں بھی گئیں
مجھے تو آنکھ جھپکنا بھی تھا گراں لیکن
دل و نظر کی تصور شعاریاں بھی گئیں
غزل
کہانیاں بھی گئیں قصہ خوانیاں بھی گئیں
کشور ناہید