کہانی لکھتے ہوئے داستاں سناتے ہوئے
وہ سو گیا ہے مجھے خواب سے جگاتے ہوئے
دیے کی لو سے چھلکتا ہے اس کے حسن کا عکس
سنگار کرتے ہوئے آئینہ سجاتے ہوئے
اب اس جگہ سے کئی راستے نکلتے ہیں
میں گم ہوا تھا جہاں راستہ بتاتے ہوئے
پکارتے ہیں انہیں ساحلوں کے سناٹے
جو لوگ ڈوب گئے کشتیاں بناتے ہوئے
پھر اس نے مجھ سے کسی بات کو چھپایا نہیں
وہ کھل گیا تھا کسی بات کو چھپاتے ہوئے
مجھی میں تھا وہ ستارہ صفت کہ جس کے لیے
میں تھک گیا ہوں زمانے کی خاک اڑاتے ہوئے
مزاروں اور منڈیروں کے رت جگوں میں سلیمؔ
بدن پگھلنے لگے ہیں دیے جلاتے ہوئے
غزل
کہانی لکھتے ہوئے داستاں سناتے ہوئے
سلیم کوثر