کہانی کو مکمل جو کرے وہ باب اٹھا لائی
میں اس کی آنکھ کے ساحل سے اپنے خواب اٹھا لائی
خوشی میری گوارہ تھی نہ قسمت کو نہ دنیا کو
سو میں کچھ غم برائے خاطر احباب اٹھا لائی
ہمیشہ کی طرح سر کو جھکایا اس کی خواہش پر
اندھیرا خود لیا اس کے لیے مہتاب اٹھا لائی
سمیٹے اس کے آنسو اپنے آنچل میں تو جانے کیوں
مجھے ایسا لگا کچھ گوہر نایاب اٹھا لائی
میسر تھا نہ کوئی خواب ان آنکھوں میں رکھنے کو
سو میں ان کے لیے اشکوں کا اک سیلاب اٹھا لائی
غزل
کہانی کو مکمل جو کرے وہ باب اٹھا لائی
حمیرا راحتؔ