کہاں تھے شب ادھر دیکھو حیا کیوں ہے نگاہوں میں
اگر منظور ہے رکھ لو مجھے جھوٹے گواہوں میں
موحد وہ ہوں گر میں سر وحدت کان میں کہہ دوں
مؤذن بت کدہ میں ہوں برہمن خانقاہوں میں
نظر مجھ سے چرا کر منہ چھپا کر کہتے جاتے ہیں
کہ یہ چوری بھی لکھی جائے گی تیرے گناہوں میں
سیہ کاری مری بن جائے رشک گیسوئے خوباں
قیامت کو چھپا بیٹھا رہوں یا رب گناہوں میں
وہی راسخؔ تو ہیں کل تک جو میخانے کے درباں تھے
بنے بیٹھے ہیں حضرت چار دن سے دیں پناہوں میں
غزل
کہاں تھے شب ادھر دیکھو حیا کیوں ہے نگاہوں میں
عبدالرحمان راسخ