کہاں تک وقت کے دریا کو ہم ٹھہرا ہوا دیکھیں
یہ حسرت ہے کہ ان آنکھوں سے کچھ ہوتا ہوا دیکھیں
بہت مدت ہوئی یہ آرزو کرتے ہوئے ہم کو
کبھی منظر کہیں ہم کوئی ان دیکھا ہوا دیکھیں
سکوت شام سے پہلے کی منزل سخت ہوتی ہے
کہو لوگوں سے سورج کو نہ یوں ڈھلتا ہوا دیکھیں
ہوائیں بادباں کھولیں لہو آثار بارش ہو
زمین سخت تجھ کو پھولتا پھلتا ہوا دیکھیں
دھوئیں کے بادلوں میں چھپ گئے اجلے مکاں سارے
یہ چاہا تھا کہ منظر شہر کا بدلا ہوا دیکھیں
ہماری بے حسی پہ رونے والا بھی نہیں کوئی
چلو جلدی چلو پھر شہر کو جلتا ہوا دیکھیں
غزل
کہاں تک وقت کے دریا کو ہم ٹھہرا ہوا دیکھیں
شہریار