کہاں تک اور اس دنیا سے ڈرتے ہی چلے جانا
بس اب ہم سے نہیں ہوتا مکرتے ہی چلے جانا
میں اب تو شہر میں اس بات سے پہچانا جاتا ہوں
تمہارا ذکر کرنا اور کرتے ہی چلے جانا
یہاں آنسو ہی آنسو ہیں کہاں تک اشک پونچھو گے
تم اس بستی سے گزرو تو گزرتے ہی چلے جانا
مری خاطر سے یہ اک زخم جو مٹی نے کھایا ہے
ذرا کچھ اور ٹھہرو اس کے بھرتے ہی چلے جانا
وفا نا آشنا لوگوں سے ملنا بھی اذیت ہے
ہوئے ایسے تو اس دل سے اترتے ہی چلے جانا
غزل
کہاں تک اور اس دنیا سے ڈرتے ہی چلے جانا
انجم خلیق