کہاں طاقت یہ روسی کو کہاں ہمت یہ جرمن کو
کہ دیکھے چشم کج سے بھی مری شاخ نشیمن کو
وفا دشمن یہ عالم اب تو ہے تیری نوازش سے
کہ رحم آنے لگا میری زبوں حالی پہ دشمن کو
نہ اب صیاد کا کھٹکا نہ اب گلچیں کا اندیشہ
کرم نے باغباں کے پھونک ڈالا میرے گلشن کو
بھلا ان بجلیوں کی شعلہ سامانی کو کیا کہئے
جنہوں نے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہو دشت ایمن کو
اٹھائے ہیں یہ فتنے نرگس غماز نے ورنہ
نہ بت سے شیخ کو ضد ہے نہ کعبے سے برہمن کو
لگاوٹ کا یہ فن باد سحر نے مجھ سے سیکھا ہے
گلوں کو گدگدایا اور نہ لپٹے خار دامن کو
غزل
کہاں طاقت یہ روسی کو کہاں ہمت یہ جرمن کو
اقبال سہیل