EN हिंदी
کہاں سے ڈھونڈھ کے لاؤں پرانے خواب آنکھوں میں | شیح شیری
kahan se DhunDh ke laun purane KHwab aankhon mein

غزل

کہاں سے ڈھونڈھ کے لاؤں پرانے خواب آنکھوں میں

ساون شکلا

;

کہاں سے ڈھونڈھ کے لاؤں پرانے خواب آنکھوں میں
کوئی منظر نہیں ٹکتا مری سیراب آنکھوں میں

نہ نیندیں تھیں نہ آنسو تھے نہ خوشیاں تھیں مگر تو تھا
کہ اب تو بھی نہیں آتا ہے ان بے خواب آنکھوں میں

کسی بھی آئنے میں اب مرا چہرہ نہیں دکھتا
مرا چہرہ نکلتا ہے انہیں بیتاب آنکھوں میں

جسے تعمیر کا ڈر ہے چلا جائے وہ بن بولے
جو ہیں تیار سچ کو وہ رہیں گے خواب آنکھوں میں

دفع کر عشق کا چرچا کہیں تو بھی نہ بہہ جائے
ابھی تو باندھ کے رکھیں ہیں سب سیلاب آنکھوں میں