کہاں سے آنا ہے ہر آدمی یہاں تنہا
رلا کے ہم کو چلا جانا ہے کہاں تنہا
یزید عصر نے گھیرا ہے یوں مجھے جیسے
مقابلے میں ہو اک تیرے بے کماں تنہا
لگے ہیں خیمے وہیں آج کاروانوں کے
گیا تھا شہر میں تھک کر جہاں جہاں تنہا
یہ کون رہتا ہے سائے کی طرح ساتھ مرے
رہ طلب میں تو میں ہوں رواں دواں تنہا
جو دیکھیے مرے ہمدم ہیں میرے ساتھ مگر
اٹھا رہا ہوں میں بار غم جہاں تنہا
سنو جو کہتے ہیں سرگوشیوں میں شہر کے لوگ
امیر شہر سے کب میں ہوں بد گماں تنہا
بجھاؤ جلد تمہاری بھی ورنہ خیر نہیں
کبھی جلا ہے چمن میں اک آشیاں تنہا
خلش کسی کا سہارا بنے کوئی کیوں کر
یہاں ہر ایک کا ہونا ہے امتحاں تنہا
غزل
کہاں سے آنا ہے ہر آدمی یہاں تنہا
خلش کلکتوی