EN हिंदी
کہاں نصیب وہ کیفیت دوام ابھی | شیح شیری
kahan nasib wo kaifiyyat-e-dawam abhi

غزل

کہاں نصیب وہ کیفیت دوام ابھی

کلیم عاجز

;

کہاں نصیب وہ کیفیت دوام ابھی
کہ مے کشی ہے بہ قید سبو و جام ابھی

حواس و ہوش کو کہئے مرا سلام ابھی
جنوں کو عقل سے لینا ہے انتقام ابھی

نہ جا سکے گی وہاں تک نگاہ عام ابھی
مرا مذاق بہت ہے بلند بام ابھی

کچھ اور لیجئے دار و رسن سے کام ابھی
جنوں کا جوش ہے پھیلا ہوا تمام ابھی

خوشی کہاں کہ خوشی کا نہیں مقام ابھی
نہ میری صبح ابھی ہے نہ میری شام ابھی

اسی طرح سے ہے بے ربطیٔ کلام ابھی
فغاں بھی آئی ہے لب پر تو ناتمام ابھی

ہے اہل ہوش کا کچھ اور ہی پیام ابھی
مگر مجھے تو ہے دیوانہ پن سے کام ابھی

جہاں میں آنے کو آئے تو انقلاب بہت
بدل سکی نہ سحر سے ہماری شام ابھی

اسی کو حاصل عمر وفا بنانا ہے
جو اک خلش سی ہے دل میں برائے نام ابھی

یہاں تو دن کو بھی تاریکیاں برستی ہیں
ہماری صبح سے اچھی ہے ان کی شام ابھی