کہاں نہ جانے چلا گیا انتظار کر کے
یہاں بھی ہوتا تھا ایک موسم بہار کر کے
جو ہم پہ ایسا نہ کار دنیا کا جبر ہوتا
تو ہم بھی رہتے یہاں جنوں اختیار کر کے
نہ جانے کس سمت جا بسی باد یاد پرور
ہمارے اطراف خوشبوؤں کا حصار کر کے
کٹیں گی کس دن مدار و محور کی یہ طنابیں
کہ تھک گئے ہم حساب لیل و نہار کر کے
تری حقیقت پسند دنیا میں آ بسے ہیں
ہم اپنے خوابوں کی ساری رونق نثار کر کے
یہ دل تو سینے میں کس قرینے سے گونجتا تھا
عجیب ہنگامہ کر دیا بے قرار کر کے
ہر ایک منظر ہر ایک خلوت گنوا چکے ہیں
ہم ایک محفل کی یاد پر انحصار کر کے
تمام لمحے وضاحتوں میں گزر گئے ہیں
ہماری آنکھوں میں اک سخن کو غبار کر کے
یہ اب کھلا ہے کہ اس میں موتی بھی ڈھونڈتے تھے
کہ ہم تو بس آ گئے ہیں دریا کو پار کر کے
بقدر خواب طلب لہو ہے نہ زندگی ہے
ادا کرو گے کہاں سے اتنا ادھار کر کے
غزل
کہاں نہ جانے چلا گیا انتظار کر کے
عرفان ستار