کہاں محفل میں مجھ تک بادۂ گلفام آتا ہے
جو میرا نام آتا ہے تو خالی جام آتا ہے
نہ آؤ تم تو پھر کیوں ہچکیوں پر ہچکیاں آئیں
انہیں روکو یہ کیوں پیغام پر پیغام آتا ہے
یہ ساون یہ گھٹا یہ بجلیاں یہ ٹوٹتی راتیں
بھلا ایسے میں دل والوں کو کب آرام آتا ہے
ادب اے جذبۂ بیباک یہ آہ و فغاں کیسی
کہ ایسی زندگی سے موت پر الزام آتا ہے
مدد اے مرگ ناکامی نقاہت کا یہ عالم ہے
بڑی مشکل سے ہونٹوں تک کسی کا نام آتا ہے
خدا رکھے تجھے اے سر زمین شہر خاموشاں
یہیں آ کر ہر اک بے چین کو آرام آتا ہے
معاذ اللہ مری آنکھوں کا اظہار تنگ ظرفی
ٹپک پڑتے ہیں آنسو جب تمہارا نام آتا ہے
زمانے میں نہیں دلدادۂ مہر و وفا کوئی
تجھے دھوکا ہے اے دل کون کس کے کام آتا ہے
غزل
کہاں محفل میں مجھ تک بادۂ گلفام آتا ہے
احسان دانش