کہاں کوئی خزانہ چاہتا ہوں
ذرا سا مسکرانا چاہتا ہوں
مجھے موجیں اچھالے جا رہی ہیں
میں کب سے ڈوب جانا چاہتا ہوں
جو پرکھوں کا سنہرا کل یہی ہے
تو واپس لوٹ جانا چاہتا ہوں
کوئی دل ہو کرائے کا مکاں ہے
میں اب ذاتی ٹھکانہ چاہتا ہوں
خدا میری انا محفوظ رکھے
میں دو روٹی کمانا چاہتا ہوں
جو تو آئے بساط زندگی پر
تو خود کو ہار جانا چاہتا ہوں

غزل
کہاں کوئی خزانہ چاہتا ہوں
ندیم فاضلی