EN हिंदी
کہاں کھو گئی روح کی روشنی | شیح شیری
kahan kho gai ruh ki raushni

غزل

کہاں کھو گئی روح کی روشنی

خلیلؔ الرحمن اعظمی

;

کہاں کھو گئی روح کی روشنی
بتا میری راتوں کو آوارگی!

میں جب لمحے لمحے کا رس پی چکا
تو کچھ اور جاگی مری تشنگی

اگر گھر سے نکلیں تو پھر تیز دھوپ
مگر گھر میں ڈستی ہوئی تیرگی

غموں پر تبسم کی ڈالی نقاب
تو ہونے لگی اور بے پردگی

مگر جاگنا اپنی قسمت میں تھا
بلاتی رہی نیند کی جل پری

جو تعمیر کی کنج تنہائی میں
وہ دیوار اپنے ہی سر پر گری

نہ جانے جلے کون سی آگ میں
ہے کیوں سر پہ یہ راکھ بکھری ہوئی

ہوئی بارش سنگ اس شہر میں
ہمیں بھی ملا حق ہمسائیگی

گزاری ہے کتنوں نے اس طرح عمر
بالاقساط کرتے رہے خود کشی

ہیں کچھ لوگ جن کو کوئی غم نہیں
عجب طرفہ نعمت ہے یہ بے حسی

کوئی وقت بتلا کہ تجھ سے ملوں
مری دوڑتی بھاگتی زندگی

جنہیں ساتھ چلنا ہو چلتے رہیں
گھڑی وقت کی کس کی خاطر رکی

میں جیتا تو پائی کسی سے نہ داد
میں ہارا تو گھر پر بڑی بھیڑ تھی

ہوا ہم پہ اب ان کا سایہ حرام
تھی جن بادلوں سے کبھی دوستی

مجھے یہ اندھیرے نگل جائیں گے
کہاں ہے تو اے میرے سورج مکھی!

نکالے گئے اس کے معنی ہزار
عجب چیز تھی اک مری خامشی