EN हिंदी
کہاں ہوں میں کہ مرا کوئی آشنا بھی نہیں | شیح شیری
kahan hun main ki mera koi aashna bhi nahin

غزل

کہاں ہوں میں کہ مرا کوئی آشنا بھی نہیں

خورشید رضوی

;

کہاں ہوں میں کہ مرا کوئی آشنا بھی نہیں
کسی کا ذکر تو کیا گھر میں آئنہ بھی نہیں

رہے خموش تو ٹوٹا نہ رشتۂ امید
پکارتے تو خرابوں میں کوئی تھا بھی نہیں

تری صدا پہ تو صدیاں بھی لوٹ آتی ہیں
مجھے بلا میں کچھ ایسا شکستہ پا بھی نہیں

یہ اور بات کہ نقش قدم دکھائی نہ دیں
مگر وہ عرصۂ دل سے ابھی گیا بھی نہیں

اس اعتراف سے رس گھل رہا ہے کانوں میں
وہ اعتراف جو اس نے ابھی کیا بھی نہیں

جس ایک چیز سے تیرا فراق آساں ہے
وہ ایک چیز تری یاد کے سوا بھی نہیں

مرا بھرم ہیں تغافل شعاریاں تیری
تو پوچھ لے تو مرا کوئی مدعا بھی نہیں

مصالحت بھی نہیں ہے سرشت میں اپنی
مگر کسی سے تصادم کا حوصلہ بھی نہیں

نہ جانے کب نہ رہیں ہم ہمیں غنیمت جان
حیات و موت میں کچھ ایسا فاصلہ بھی نہیں

مآل کار قناعت ہے سو ابھی سے سہی
وگرنہ طول تمنا کی انتہا بھی نہیں