EN हिंदी
کہاں ہم اور کہاں اب شراب خانۂ عشق | شیح شیری
kahan hum aur kahan ab sharab-KHana-e-ishq

غزل

کہاں ہم اور کہاں اب شراب خانۂ عشق

جلیلؔ مانک پوری

;

کہاں ہم اور کہاں اب شراب خانۂ عشق
نہ وہ دماغ نہ وہ دل نہ وہ زمانۂ عشق

ہوا ہے شہر خموشاں میں جب گزر میرا
سنا کیا ہوں لب گور سے فسانۂ عشق

خیال رخ پہ ہے موقوف دل کی آبادی
کبھی نہ گل ہو الٰہی چراغ خانۂ عشق

بھرے ہوئے ہیں حسینان سیم تن دل میں
خدا کرے کبھی خالی نہ ہو خزانۂ عشق

گئی دماغ میں جس کے کیا اسیر اسے
عجب کمند ہے بوئے شراب خانۂ عشق

کہیں ہے داغ کا مضموں کہیں ہے سوز کا ذکر
سنو نہ تم کہ بہت گرم ہے فسانۂ عشق

غلط ہے صاحب دولت کو گر غنی کہیے
غنی وہ ہے جسے اللہ دے خزانۂ عشق

جو بحر غم میں گرا ہاتھ دھو کے جینے سے
اسی کے ہاتھ بھی آیا در یگانۂ عشق

تمام عمر اسی صحرا کی خاک چھانی ہے
جو تم سنو تو سناؤں کوئی فسانۂ عشق

بنے ہیں جب سے وہ یوسف ہر ایک گاہک ہے
کھلا ہوا ہے یہاں بھی در خزانۂ عشق

کسی پہ دل کا تھا آنا کہ بے خودی چھائی
سمند ہوش کو آفت ہے تازیانۂ عشق

جب ان کے دل میں یہ آتی ہے کچھ سنیں نالے
تو مجھ سے کہتے ہیں چھیڑو کوئی ترانۂ عشق

چمک کے داغ یہ کہتا ہے دل کی آہوں سے
ہوا سے بجھ نہیں سکتا چراغ خانۂ عشق

یہ جانیے کہ لگی ہاتھ دولت کونین
ملے جو خرمن ہستی سے ایک دانۂ عشق

یہاں ایازؔ ہے آقا غلام ہے محمودؔ
جلیلؔ کیا میں کہوں تم سے کارخانۂ عشق