کہاں ہم اور دشمن مل کے دونوں کوئی دم بیٹھے
جو وہ بیٹھا تو ہم اٹھے جو وہ اٹھا تو ہم بیٹھے
رسائی بام تک اپنی نہ ہوگی یا کبھی ہوگی
یہ پہروں سوچتے ہیں کوچۂ جاناں میں ہم بیٹھے
یہ کس انداز سے کہتے ہیں سن کر داستاں میری
جہاں پوچھا کسی نے لے کے یہ طومار غم بیٹھے
یہ قسمت کے فرشتے ہیں یہ خوبی ہے مقدر کی فقط
خضر اٹھ جائیں دنیا سے رہیں اے نوحؔ ہم بیٹھے
غزل
کہاں ہم اور دشمن مل کے دونوں کوئی دم بیٹھے
نوح ناروی