EN हिंदी
کہاں ہم اور دشمن مل کے دونوں کوئی دم بیٹھے | شیح شیری
kahan hum aur dushman mil ke donon koi dam baiThe

غزل

کہاں ہم اور دشمن مل کے دونوں کوئی دم بیٹھے

نوح ناروی

;

کہاں ہم اور دشمن مل کے دونوں کوئی دم بیٹھے
جو وہ بیٹھا تو ہم اٹھے جو وہ اٹھا تو ہم بیٹھے

رسائی بام تک اپنی نہ ہوگی یا کبھی ہوگی
یہ پہروں سوچتے ہیں کوچۂ جاناں میں ہم بیٹھے

یہ کس انداز سے کہتے ہیں سن کر داستاں میری
جہاں پوچھا کسی نے لے کے یہ طومار غم بیٹھے

یہ قسمت کے فرشتے ہیں یہ خوبی ہے مقدر کی فقط
خضر اٹھ جائیں دنیا سے رہیں اے نوحؔ ہم بیٹھے