EN हिंदी
کہا یہ کس نے کہ اب مجھ کو تم سے پیار نہیں | شیح شیری
kaha ye kis ne ki ab mujhko tum se pyar nahin

غزل

کہا یہ کس نے کہ اب مجھ کو تم سے پیار نہیں

کویتا کرن

;

کہا یہ کس نے کہ اب مجھ کو تم سے پیار نہیں
یہ اور بات ہے تم پر وہ اختیار نہیں

مرے تو اپنے ہی آنگن میں پاؤں زخمی ہوئے
مجھے یہاں پہ کسی پر بھی اعتبار نہیں

تمام عمر کٹی تیری راہ تکتے ہوئے
کچھ ایسا حال ہے خود اپنا انتظار نہیں

کبھی کے ختم ہوئی اعتبار کی دنیا
کسی کے واسطے اب کوئی بے قرار نہیں

چمن میں کیسی ہوا چل رہی ہے اب کے برس
گلوں کے چہروں پہ پہلا سا اب نکھار نہیں

سلوک دوست نے کیا ایسا کر دیا ہے کرنؔ
کہ عمر کٹ گئی دل کو مگر قرار نہیں