کہا یہ آج ہمیں فہم نے سنو صاحب
یہ باغ دہر غنیمت ہے دیکھ لو صاحب
جو رنگ و بو کے اٹھانے میں حظ اٹھا لیجے
مبادا پھر کف افسوس کو ملو صاحب
یہ وہ چمن ہے نہیں ایک سے نہیں جس میں
تبدل اس کا ہر اک گل سے سوچ لو صاحب
کہ تھا جو صبح شگفتہ نہ تھا وہ شام کے وقت
جو شام تھا سو نہ دیکھا وہ صبح کو صاحب
پس اس مثال سے ظاہر ہے یہ سخن یعنی
اسی طریق سے عالم میں تم بھی ہو صاحب
جو سر نوشت ہے ہوگا اسی طرح سے نظیرؔ
قضا قضا نہیں ہونے کی کچھ کرو صاحب
غزل
کہا یہ آج ہمیں فہم نے سنو صاحب
نظیر اکبرآبادی