کہا جو میں نے کہ یوسف کو یہ حجاب نہ تھا
تو ہنس کے بولے وہ منہ قابل نقاب نہ تھا
شب وصال بھی وہ شوخ بے حجاب نہ تھا
نقاب الٹ کے بھی دیکھا تو بے نقاب نہ تھا
لپٹ کے چوم لیا منہ مٹا دیا ان کا
نہیں کا ان کے سوا اس کے کچھ جواب نہ تھا
مرے جنازے پہ اب آتے شرم آتی ہے
حلال کرنے کو بیٹھے تھے جب حجاب نہ تھا
نصیب جاگ اٹھے سو گئے جو پاؤں مرے
تمہارے کوچے سے بہتر مقام خواب نہ تھا
غضب کیا کہ اسے تو نے محتسب توڑا
ارے یہ دل تھا مرا شیشۂ شراب نہ تھا
زمانہ وصل میں لیتا ہے کروٹیں کیا کیا
فراق یار کے دن ایک انقلاب نہ تھا
تمہیں نے قتل کیا ہے مجھے جو تنتے ہو
اکیلے تھے ملک الموت ہم رکاب نہ تھا
دعائے توبہ بھی ہم نے پڑھی تو مے پی کر
مزہ ہی ہم کو کسی شے کا بے شراب نہ تھا
میں روئے یار کا مشتاق ہو کے آیہ تھا
ترے جمال کا شیدا تو اے نقاب نہ تھا
بیان کی جو شب غم کی بیکسی تو کہا
جگر میں درد نہ تھا دل میں اضطراب نہ تھا
وہ بیٹھے بیٹھے جو دے بیٹھے قتل عام کا حکم
ہنسی تھی ان کی کسی پر کوئی عتاب نہ تھا
جو لاش بھیجی تھی قاصد کی بھیجتے خط بھی
رسید وہ تو مرے خط کی تھی جواب نہ تھا
سرور قتل سے تھی ہاتھ پاؤں کو جنبش
وہ مجھ پہ وجد کا عالم تھا اضطراب نہ تھا
ثبات بحر جہاں میں نہیں کسی کو امیرؔ
ادھر نمود ہوا اور ادھر حباب نہ تھا
غزل
کہا جو میں نے کہ یوسف کو یہ حجاب نہ تھا
امیر مینائی