کف خزاں پہ کھلا میں اس اعتبار کے ساتھ
کہ ہر نمو کا تعلق نہیں بہار کے ساتھ
وہ ایک خموش پرندہ شجر کے ساتھ رہا
چہکنے والے گئے باد سازگار کے ساتھ
کھلے دروں سے طلب گار خواب گاہیں مگر
میں جاگتا رہا اک خواب ہمکنار کے ساتھ
کلی کھلی ہے سر شاخ اور یہ کہتی ہے
کہ کوئی دیکھے تمنائے خوش گوار کے ساتھ
وہ مجھ کو وہ نہ لگا دیکھتا سسکتا ہوا
نگاہ زرد کے ساتھ اور دل فگار کے ساتھ
مدار وقت وہ گنجائشیں ذرا پھر سے
کہ پڑ رہیں کسی دیوار سایہ دار کے ساتھ
غزل
کف خزاں پہ کھلا میں اس اعتبار کے ساتھ
عابد سیال