کڑی ہے دھوپ کرے کس طرح سفر کوئی
نہیں ہے راہ میں اب دور تک شجر کوئی
میں اپنے شہر میں پھرتا ہوں اجنبی کی طرح
عجب نگاہ سے تکتا ہے مجھ کو ہر کوئی
تمام عمر میں خود اپنے آپ میں گم تھا
تلاش کرتا رہا مجھ کو عمر بھر کوئی
میں ایک راہ گزر کی تلاش میں ہوں مگر
تلاش کرتی ہے مجھ کو بھی رہ گزر کوئی
میں برگزیدہ بزرگوں کی اک نشانی ہوں
مجھے بھی دیکھ لے جی بھر کے اک نظر کوئی
ہماری بستی میں کہنے کو لوگ بستے ہیں
مکان چاروں طرف ہیں نہیں ہے گھر کوئی

غزل
کڑی ہے دھوپ کرے کس طرح سفر کوئی
خواجہ جاوید اختر